واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

  

حضرت خواجہ کرم الدین ممشاددینوری

رحمتہ اللہ علیہ

آپ کا اسم گرامی حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ اور لقب کریم الدین تھا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت بو ہبیرہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کے مرید خاص تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار جلیل القدر مشائخ و صاحبان علوم ظاہری و باطنی میں ہوتا ہے۔

حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ سے عجیب و غریب کرامات ظاہر ہوئیں چنانچہ کہا جاتا ہے کے آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی ولادت کے دن سے ہی صائم الدہر تھے اور ایام شیر خوارگی میں بھی دن کے وقت دودھ نہیں پیا کرتے تھے۔

حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ ابتدائی زندگی میں بڑے صاحب ثروت اور دنیا دار تھے۔مگر جب اللہ سے لگاؤ ہوا تو سب کچھ غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے اور فرمایا کہ اے اللہ میں نے اپنے عزیزو اقارب کو تیرے سپرد کر دیا ہے۔اب انہیں رزق دینا تیرا کام ہے۔

    ایک دن دوران سفر ایک شخص کو دیکھا کہ سر پر کھانا رکھے تیز تیز جا رہا  تھا ۔آپ نے پوچھا تم کون ہو اور یہ کھانا کس کےلیے ہے۔اس شخص نے کہا میں رجال الغیب سے ہوں ۔ یہ کھانا تمہارے اہل و عیال کے لیے ہے۔ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ ہر  روز  انہیں کھانا پہچاؤں۔

   جس دن حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے خرقہ خلافت پہنا ۔حضرت خواجہ ہبیرہ بصری ؒ نے آپ کو فرمایا اے علو ! جا تمہارا کام بھی علو (اعلٰی) ہو گیا۔ وضو کر کے ہمارے پاس  آؤ۔ حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ وضو کرکے آئے تو  حضرت خواجہ ہبیرہ بصری ؒ نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کر کے کہا اے اللہ علو کو درویشی عطا فرما دے۔یہ بات سنتے ہی حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ بہوش ہو گئے۔ چند لمحوں کے بعد ہوش میں آئے تو پھر بہوش ہو گئے۔اس طرح چالیس با ر بہوش ہوئے۔آخر حضرت خواجہ ہبیرہ بصری ؒ نے اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا تو پوری طرح ہوش میں آگئے اور آپ کے قدموں میں گر گئے۔ حضرت خواجہ ہبیرہ بصری ؒ نے فرمایا علو تمہیں اپنے مطلب کا دیدار ہو گیا ہے۔ حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ میں تیس سال تک  مجاہدہ کرتا رہا ، ریاضتیں کیں مگر یہ مقام نہ پا سکا۔آج آپ کی وساطت سے ایک لمحہ میں پہنچ گیا ہوں اور بے پناہ دولت ملی ہے۔ حضرت خواجہ ہبیرہ بصریؒ نے آپ کو اپنا خرقہ پہنایا اور اپنے مصلیٰ پر بٹھا کر ارشاد  و سلوک کی اجازت دی۔

تذکرۃ الاصفیاء اور مشائخ چشت کے بعض دوسرے رشحات میں لکھا ہے کہ شیخ علی دینوری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ ممشاد دینوری رحمتہ اللہ علیہ دونوں ایک ہی شخصیت ہیں اور انہیں شیخ ممشاد علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ لکھا جاتا ہے لیکن دارا شکوہ کے مطابق نفحات الانس اور بعض دوسری کتب سے یہ تفہیم ہوتی ہے کہ شیخ علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ ممشاد دینوری رحمتہ اللہ علیہ علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں چنانچہ دارا شکوہ نے شیخ ممشاد دینوری رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ عظام میں علیحدہ سے کیا ہے۔ دارا شکوہ نے انہیں سیدالطائفہ شیخ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا مرید بتایا ہے۔

             آپ ۴ محرم الحرام ۲۹۸ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ دینور میں ہے۔